بٹلہ ہاوس کی سنکری گلیوں میں ایک دوسرے سے سٹی کھڑی عمارتوں کے اندھیرے کمروں میں صرف مصنوعی روشنی ہی نظر آتی ہے۔ دھوپ تو انکے چھوٹے چھوٹے آنگنوں تک بھی نہیں آتی۔ میں بھی کمرے میں بیٹھے بیٹھے گھٹ سا گیا تھا۔ سردی کی وجہ سے پیر بھی برف ہوئے جا رہے تھے۔ سڑکوں پر گھومنے کے علاوہ جامعہ کالج کا وسیع کیمپس بھی اکثر میرا ٹھکانا بنتا ہے۔ کینٹین کے پاس کے لان میں دھوپ بکھری رہتی ہے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لگی بنچوں پر اسٹوڈنٹ بیٹھے گپ شپ کرتے، چائے نوشی کرتے یا کبھی کبھی کتاب پڑھتے بھی نظر آتے ہیں ۔ مجھے بھی وہان بیٹھنا پسند ہے۔ چائے کا کپ ایک ہاتھ میں پکڑے دوسرے ہاتھ سے کتاب تھامے ایک لڑکا اکثر وہاں دکھتا ہے۔ کتاب کے پنوں سے ہٹکر چارو ں طرف گھومتی اسکی نگاہیں نہ جانے کسکو ڈھونڈھتی ہیں۔ کوئ جان پہچان والا اگر مل جائے تو مسکرا کر کچھ دیر اس سے بات کر لیتا ہے اور پھر کتاب میں گم ہو جاتا ہے۔ میں اسے اکثر یہیں دیکھتا ہوں۔ مگر وہ اس بات سے بے نیاز نظر آتا ہے کی کو ئ اسے دیکھتا ہے یا نہں۔ یا شاید دل میں سوچتا ہو مگر اظہار نہ کرتا ہو۔ آج بھی وہ یونہی بیٹھا کتاب پڑھ رہا ہے۔ ہاتھ میں چائے